علیکن منی السلام
کہتے تھے یہ شاہ انام
تم سب کی خاطر غم کی خبر ہے
مقتل کی جانب میرا سفر ہے
دیں کی بقا پر میری نظر ہے
جب تک یہ باقی خون جگر ہے
جاری رہے میرا قیام
میں کربلا جس دم آکے پہنچا
کس کی زمیں ہے یہ پہلے پوچھا
پھر اسکو فورا میں نے خریدا
اور اس عمل سے تمکو سکھایا
کیا ہے حلال کیا ہےحرام
اے میرے شیعوں یہ کربلا ہے
عباس کی جو طرز وفا ہے
اکبر کے لاشے سے جو ملا ہے
جو خون اصغر سے رس رہا ہے
تم یاد رکھنا وہ پیام
تسکین کوئی پل بھر نہ ہوگی
سیراب میری دختر نہ ہوگی
بہنوں کے سر پر چادر نہ ہوگی
پھر بھی ہراساں خواہر نہ ہوگی
جب کربلا سے پہنچے شام
شہ وقت رخصت بیٹی سے بولے
میری سکینہ لگ جا گلے سے
ماریں گے تجھکو ظالم طمانچے
بوسے بھی لوں رخساروں کے تیرے
جو ہونگے ہئے نیلے تمام
عامر سے کہتے ہیں شاہ صفدر
کرب و بلا کا دیکھو یہ منظر
ہے میرے زانو پہ جون کا سر
یعنی جہاں میں سب ہوں برابر
قائم کرو ایسا نظام
علیکن منی السلام
کہتے تھے یہ شاہ انام
0 Comments:
Please do not enter any spam link in the comment box.