Shab-e-Gurbat Hai Zainab S.A Par
===========================
نہ غازی ہے نہ ہے اکبر شبِ غربت ہے زینب ع پر
نجف سے آئیے حیدر شبِ غربت ہے زینب ع پر
کہیں بے سر پڑے لاشے کہیں قاسم کے ہیں ٹکڑے
کہیں عباس ع کے بازو کہیں جلتے ہوئے خیمے
عجب ہیں دشت کے منظر شبِ غربت ہے زینب ع پر
رسول اللہ کی صورت لیے پھر دشت میں آو
تسلی کے لیے زینب ع کو سینے سے لگا جاو
کہاں ہو اے علی اکبر شبِ غربت ہے زینب ع پر
کبھی جاگے ہوئے بچوں کو خیموں میں سُلاتی ہے
کبھی وہ بھائی کے سینے سے تیروں کو ہٹاتی ہے
اٹھاتی ہے کبھی پتھر شبِ غربت ہے زینب ع پر
سرِ عباس کو لازم نے چاھا اور تڑپائے
رسن میں باندھ کے زینب ع کو سر کے روبرو لائے
دکھاتے سر کو ہیں چادر شبِ غربت ہے زینب پر
اٹھو اب چھوڑ دو لاشہ سکینؑہ اپنے بابا کا
چلو خیام کی جانب بڑا بیمار ہے بھیا
میری بچی نہ یوں ضد کر شبِ غربت ہے زینبؑ پر
جسے بابا علی مل کر نظر اپنی جھکاتے تھے
اسے امت دکھاتی ہے کبھی رسیاں کبھی نیزے
کھڑا ہے شمر خیمے پر شبِ غربت ہے زینب پر
فضلؑ بولے اجازت دیں مجھے جانے کی اے مادر
ابھی اک پل میں آجائیں گے بابا نہر سے اٹھ کر
کہوں گا بس یہی جاکر شبِ غربت ہے زینبؑ پر
نبی زادی ہوں امت نے یہ اک پل کو نہیں سوچا
میرے خیمے کے بلکل سامنے جب نے شمر نے بولا
ردائیں لوٹ لو آکر شبِ غربت ہے زینب ع پر
ابھی بھولی کہاں تھی بھائی پہ وہ وار خنجر کے
جلا اصغر کا جھولا سامنے اصغر کی مادر کے
جلا سجاد کا بستر شبِ غربت ہے زینب ع پر
یہاں ہر شام ہے شامِ غریباں جیسی ویرانی
امام آئے محمد اور مٹے ہر ظلم کا بانی
ہے کہتا شام کا منظر شبِ غربت ہے زینب ع پر
0 Comments:
Please do not enter any spam link in the comment box.