رب کا وعدہ ہے یہ عزاداری
کون روکے گا یہ عزاداری
چاند ماہ ِعزا کا آیا نظر
کالے پرچم لگے ہیں ہر گھر پر
جانتے ہیں تمام جن و بشر
کام اس سے نہیں کوئی بہتر
نہیں کرتے ہیں ہم
یہ دنیا کا غم
ہیں آنسو رواں
اٹھا کر عالم
کام پہلا ہے یہ عزاداری
جب سجاتے ہیں ہم عزاخانہ
اُس میں رکھتے ہیں بالیاں جھولا
مہندی رکھتے ہیں اور اک کنگنا
کچھ علم اور ساتھ میں سہرا
آئے اہل ِعزا
یقیں ہے میرا
گھر آئینگی اب
میرے سیدہ
ازن ِزہرہ ہے یہ عزاداری
ہر گلی میں سبیل ہے جو لگی
یہ دعائیں ہیں مشک والی کی
تیرے صدقے میں اے میری بی بی
آج پیاسا نہیں ہے کوئی بھی
علم کی قسم
کرم ہے کرم
یہ دامن کبھی
نہ چھوڑیں گے ہم
شمع سے شمع جلے سلسلہ جاری رہے ہم رہے یا نہ یہ عزاداری رہے
فرض اپنا ہے یہ عزاداری
آٹھ آتی ہے جب محرم کی
مائیں بچوں کو کرتی ہیں گروی
اُن کو پہناتی ہیں ہر کفنی
بچے کرتے ہیں سارے سقائی
نا خوف و خطر
نہ دنیا کا ڈر
نکلتے ہیں سب
کفن اوڑھ کر
ایسا جذبہ ہے یہ عزاداری
آج واجب ہے کل بھی واجب تھا
ہے یہ ماتم بھی اک نماز ِعزا
آگ اور خون سے ہیں کرتے ادا
منہ پہ کرتے ہیں ہاتھ سے پُرسہ
چلے خوں میں تر
اے شہ کے پسر
ہمیں یاد ہے
تمھارا صفر
تھام کر یہ علم
بڑھتے جائے یہ قدم
دل میں ہو شہ کا غم
اپنا وارثہ ہے یہ عزاداری
کیجئے نوجوان کا ماتم
تیر کا اور کمان کا ماتم
ہائے سوکھی زبان کا ماتم
شاہ کے خاندان کا ماتم
کہیں نوجواں
کہیں بے زباں
دیا شاہ نے
عجب امتحاں
لاش اٹھانا ہے یہ عزاداری
جلتا صحرا تھا ایک پیاسا تھا
کند خنجر گلے پہ چلتا تھا
خون سوکھی روگوں سے بہتا تھا
خاک پر ایڑیاں رگڑتا تھا
وہ پیاسا رہا
نہ پانی ملا
وہ سوکھا ہوا
گالا کٹ گیا
اُس پہ رونا ہے یہ عزاداری
ارسلان اعظمی خدا کی قسم
مجھے ہے بی بی سیدہ کا کرم
چلتا رہتا ہے جو یہ میرا قلم
نوحے کرتا رہونگا یونہی رقم
میرا فرض ہے
بڑا قرض ہے
کرم ہو یونہی
یہی عرض ہے
میرا لکھنا ہے یہ عزاداری
کون روکے گا یہ عزاداری
چاند ماہ ِعزا کا آیا نظر
کالے پرچم لگے ہیں ہر گھر پر
جانتے ہیں تمام جن و بشر
کام اس سے نہیں کوئی بہتر
نہیں کرتے ہیں ہم
یہ دنیا کا غم
ہیں آنسو رواں
اٹھا کر عالم
کام پہلا ہے یہ عزاداری
جب سجاتے ہیں ہم عزاخانہ
اُس میں رکھتے ہیں بالیاں جھولا
مہندی رکھتے ہیں اور اک کنگنا
کچھ علم اور ساتھ میں سہرا
آئے اہل ِعزا
یقیں ہے میرا
گھر آئینگی اب
میرے سیدہ
ازن ِزہرہ ہے یہ عزاداری
ہر گلی میں سبیل ہے جو لگی
یہ دعائیں ہیں مشک والی کی
تیرے صدقے میں اے میری بی بی
آج پیاسا نہیں ہے کوئی بھی
علم کی قسم
کرم ہے کرم
یہ دامن کبھی
نہ چھوڑیں گے ہم
شمع سے شمع جلے سلسلہ جاری رہے ہم رہے یا نہ یہ عزاداری رہے
فرض اپنا ہے یہ عزاداری
آٹھ آتی ہے جب محرم کی
مائیں بچوں کو کرتی ہیں گروی
اُن کو پہناتی ہیں ہر کفنی
بچے کرتے ہیں سارے سقائی
نا خوف و خطر
نہ دنیا کا ڈر
نکلتے ہیں سب
کفن اوڑھ کر
ایسا جذبہ ہے یہ عزاداری
آج واجب ہے کل بھی واجب تھا
ہے یہ ماتم بھی اک نماز ِعزا
آگ اور خون سے ہیں کرتے ادا
منہ پہ کرتے ہیں ہاتھ سے پُرسہ
چلے خوں میں تر
اے شہ کے پسر
ہمیں یاد ہے
تمھارا صفر
تھام کر یہ علم
بڑھتے جائے یہ قدم
دل میں ہو شہ کا غم
اپنا وارثہ ہے یہ عزاداری
کیجئے نوجوان کا ماتم
تیر کا اور کمان کا ماتم
ہائے سوکھی زبان کا ماتم
شاہ کے خاندان کا ماتم
کہیں نوجواں
کہیں بے زباں
دیا شاہ نے
عجب امتحاں
لاش اٹھانا ہے یہ عزاداری
جلتا صحرا تھا ایک پیاسا تھا
کند خنجر گلے پہ چلتا تھا
خون سوکھی روگوں سے بہتا تھا
خاک پر ایڑیاں رگڑتا تھا
وہ پیاسا رہا
نہ پانی ملا
وہ سوکھا ہوا
گالا کٹ گیا
اُس پہ رونا ہے یہ عزاداری
ارسلان اعظمی خدا کی قسم
مجھے ہے بی بی سیدہ کا کرم
چلتا رہتا ہے جو یہ میرا قلم
نوحے کرتا رہونگا یونہی رقم
میرا فرض ہے
بڑا قرض ہے
کرم ہو یونہی
یہی عرض ہے
میرا لکھنا ہے یہ عزاداری
0 Comments:
Please do not enter any spam link in the comment box.