ہائے عباس علمدار
کربوبلا کے بن میں زینب کا تھا یہ نوحہ
دل میں بسایا تیرا ارمان فاطمہ نے
مانگا تھا تجھ کو رب سے سجدوں میں مرتضی نے
لاشے پہ باوفا کے کہتی تھی بنتِ زہرا
بیٹی کو شاہِ دیں کی دروں سے مارتے ہیں
اولادِ مصطفیٰ کو باغی پکارتے ہیں
ہر سمت ہیں ستمگر کوئی نہیں ہے اپنا
نیزوں سے مارتے ہیں برسا رہے ہیں پتھر
ہر سمت سے ستمگر کرتے ہیں وار اِس پر
حامی نہیں ہے کوئی دلبندِ فاطمہ کا
آئے نہیں پلٹ کر مقتل میں جو گئے ہیں
اٹھارہ میرے بھائی مقتل میں سو گئے ہیں
چادر بھی چھن گئی ہے سر پر نہیں ہے سایہ
بھائی کی لاڈلی کو کوئی رُلا رہا ہے
آکر کوئی ستمگر خیمے جلا رہا ہے
برسا رہا ہے کوئی عابد پہ تازیانہ
کس کس کو میں سبھالوں کہتی ہے بنتِ زھرا
بچوں کو ڈھونتی ہیں امِ رباب و فروا
اکبر کو یاد کرکے غش کھا رہی ہے لیلیٰ
اے شمس کتنا پُر غم منظر تھا علقمہ کا
لاشہ تڑپ رہا تھا عباسِ باوفا کا
جب تذکرہ ردا کا زینب کے لب پہ آیا
0 Comments:
Please do not enter any spam link in the comment box.